
اسلام آباد وفاقی حکومت نے مختلف وزارتوں میں 1لاکھ 50ہزار اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کفایت شعاری کی پالیسی پر گامزن ہے اور مالی سال 2025کے آخر تک 42وزارتوں کے ساتھ متصل 400ذیلی اداروں کے حوالے سے فیصلہ کر لیں گے۔ پنشن کے حوالے سے اصلاحات بھی اس ملک میں پہلی بار ہوئی ہیں‘ ہم نے ملکی خزانے کی بلیڈنگ کو روک لیا ہے اور یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے جو کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتی تھی۔منگل کو رائٹ سائزنگ کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ حکومت کے سارے اقدامات درست سمت میں جارہے ہیں‘ ہم ملک کو ایک مستقل گروتھ کی سمت لیکر جائیں گے اور معیشت کی سمت کو تبدیل کرنا ہے‘ ٹیکسیشن کے شعبے میں اصلاحات دسمبر تک مکمل ہوجائیں گی اور جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے ثمرات عوام تک جلد پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کے جو اخراجات ہورہے ہیں اس کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ سال جون میں وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی رائٹ سائزنگ کیلئے بنائی تھی اس کمیٹی میں وفاقی وزراسمیت نجی شعبے کی شراکت داری ہے‘ اس کمیٹی کے سامنے یہ سوال تھا کہ اداروں کی افادیت ہے یا نہیں ہے اور ان کو ختم کردینا چاہیے یا نہیں اور حکومت کے جو اثاثے ہیں وہ حکومت کے پاس رہنے چاہیے یا نجی شعبے کے حوالے سے کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کے ساتھ منسلک اداروں کے ساتھ 400ذیلی ادارے تھے جن کاخرچہ اربوں روپے تھا اور کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام تر صورتحال کو بتدریج لیکر چلیں اور ہر دفعہ 5سے 6وزارتوں اور اس کے ذیلی اداروں کے متعلق فیصلہ کریں کیونکہ تمام 43وزارتوں کے بارے میں فیصلہ کرنا مناسب نہیں تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلی بار6وزارتوں اور اس کے ساتھ منسلک اداروں کے سربراہوں کو بلایا اور ان کو سنا گیا‘ ایک ایک وزارت کے ساتھ کئی کئی دن اور کئی کئی گھنٹے بحث کی گئی تاکہ کوئی بھی سقم نہ رہے اور فیصلہ ہوسکے کہ کونسی چیزیں صوبوں کے پاس جائیں اور کونسی چیزیں بند کردیں‘وفاقی حکومت بھی اداروں کو بہتری کی سمت لیکر جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ اور وزیر اعظم کے پاس لیکر جاتی ہیں اور وہاں سے منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کا فارمولا بنایا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی فیصلہ ہوا میں نہ رہے اور اس پر عملدرآمد ہوسکے۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ جو فیصلے کئے گئے گذشتہ چھ مہینوں میں اس میں جو خالی پوسٹیں ہیں یا جن پر تعیناتیاں نہیں ہوئیں اس میں سے 60فیصد کو ختم کیا جائے اور یہ 1لاکھ 50ہزار اسامیاں بنتی ہیں اور اس کی منظوری وزیر اعظم نے دیدی ہے جبکہ خدمات سے متعلق کو آوٹ سورس کیا جائے گاجو کنٹنجنسی اسامیاں ہیں اس کو کس حد تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزارت خزانہ تمام وزارتوں کے اخراجات اور کارکردگی پر نظر رکھے گی‘ کشمیر،آئی ٹی،صنعت و پیدوار،سی ڈی اے،قومی صحت کے اداروں سے اسامیاں ختم کی گئی ہیں اور ان سب وزارتوں کی جانب سے عمل درآمد کی رپورٹ بھی طلب کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیفران اور کشمیر افیرز کو ضم کردیا جائے گا جبکہ کیڈ کی وزارت کو ختم کردیا جائیگا جبکہ رائٹ سائزنگ کے تحت80اداروں کو کم کرکے 40کردیا جائے گا ان میں سے کچھ کوضم کردیا‘وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،ہاؤسنگ اینڈ ورکس میں سے 60اداروں میں 25کوختم کردیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ 5 وزارتوں میں وفاقی تعلیم،اطلاعات و نشریات،قومی ورثہ،خزانہ اور وزارت توانائی کے ساتھ منسلک اداروں کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گاان وزارتوں کے ساتھ تمام تر بات چیت مکمل ہوچکی ہے اور سفارشات کابینہ کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ ابھی تک ہم نے16کے قریب وزارتوں کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے اور اس سال کے اخر تک تمام وزارتوں کے حوالے سے مراحل مکمل کر لئے جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کا کام پالیسی دینا ہے اور مناسب ماحول فراہم کرنا ہے جبکہ نوکریاں فراہم کرنا نجی شعبے کا کام ہےُاگر نجی شعبہ بہتر ہوگا تو نوکریاں زیادہ ہونگی۔ اس موقع پر بلال کیانی نے کہاکہ جن 1لاکھ 50ہزار اسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس حوالے سے تمام وزارتوں کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے اسی طرح جیسے جیسے لوگ ریٹائرڈ ہوتے ہیں اسی طرح مزید ملازمتیں نجی شعبے کے حوالے کی جائیں گی‘18ویں ترمیم کے تحت اداروں کی منتقلی بھی ضروری ہے اور اداروں کی ڈوبلیکیشن بھی ختم کرنا ضروری ہے اور اس میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔وفاقی وزیر نے کہاکہ صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس ہونا چاہیے اس کے ساتھ وفاقی حکومت کا کیا کام ہے؟ انہوں نے کہاکہ ملک کے تمام اہم اداروں کو صحیح سمت میں لیکر جانا ہے اور اس حوالے سے اگر آئی ایم ایف بھی کوئی بنچ مارک دے دیتی ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے‘ وفاقی حکومت کا حجم کم کرنا چاہتے ہیں اور وزارتوں سمیت اس کے ذیلی اداروں کو ختم کر نے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے‘ مالی سال کے اخر تک اس کو مکمل کر لیا جائے گا اوراس سے بجٹ پر اچھا اثر پڑے گا۔انہوں نے کہاکہ پنشن کے حوالے سے اصلاحات بھی اس ملک میں پہلی بار ہوئی ہیں‘ ہم نے ملکی خزانے کی بلیڈنگ کو روک لیا ہے اور یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے جو کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ اس حوالے سے ایک مفصل رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں ان پبلک سیکٹر اداروں کے نقصانات کے حوالے سے تفصیل سے لکھا گیا ہے‘ ہمیں پہلے ان اداروں کے حوالے سے جو غلط ہورہا ہے اس کا ادراک کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ وزارت اطلاعات اور وزارت خزانہ کے حوالے سے بھی اصلاحات کی جارہی ہیں‘جو سفارشات کی ہیں کہ کچھ اداروں کو ختم کیا جائے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے انہوں نے کہاکہ وفاقی کابینہ میں ہماری 90فیصد سے زیادہ سفارشات کو منظور کر لیا جاتا ہے۔ پریس کانفرنس میں سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ ہر وزارت کا جائزہ لے رہے ہیں اور کسی کو بھی استشنا حاصل نہیں ہے‘ کچھ ایس او ایز کو سٹریٹجک قرار دیا گیا ہے تاہم سب کا جائزہ ہورہا ہے انہوں نے کہاکہ ٹریژری سنگل اکاؤنٹ پر سب اداروں کو لیکر آنا ہے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہے ہیں انہوں نے کہاکہ صوبوں کی بھی خواہش ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد جو ادارے صوبوں کو منتقل کرنے ہیں وہ کردئیے جائیں اور اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے انہوں نے کہاکہ وزارتوں کے ساتھ متصل 400اداروں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گااس موقع پر بلال کیانی نے کہاکہ گریڈ 1سے لیکر گریڈ 22تک جہاں پر ضرورت ہوگی اسامی کو ختم کردیا جائے گا۔۔