
اسلام آباد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرایوب نے کہا ہے کہ ہمارے دور حکومت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا جنرل (ر) باجوہ نے کہا تھا، یہ کسی فرد واحد کا فیصلہ نہیں تھا، اس وقت قومی سلامتی اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین شریک تھے۔رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، تشدد اور انتہاپسندی کے حامی نہیں۔عمران خان سے لے کر تمام ورکرز کو سیاسی مقدمات میں الجھایا گیا ہے، ہم پرامن جماعت ہیں اور کسی قسم کے تشدد اور انتہاپسندی کے حامی نہیں ہیں۔یہاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمرایوب نے کہا کہ اس وقت پاکستان ٹائمز کا دور نہیں، یہ ایسا وقت ہے جہاں معلومات لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی رفتار کے سست کرنے کے باوجود نوجوانوں تک انفارمیشن پہنچ جاتی ہے۔انہوں نے اپنے دور حکومت میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اور حکومت کے اراکین کو اس وقت کی فوجی قیادت نے اعتماد میں لیا تھا، اسد قیصر نے قومی سلامتی کمیٹی کی صدارت کی تھی، جنرل (ر) باجوہ نے یہ بات کہی تھی کہ ہر ایک جنگ اور تنازعہ کا اختتام مذاکرات کے ساتھ ہوتا ہے، ہمارے دور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، بلاول بھٹو، خواجہ آصف کے علاوہ بھی اراکین اس اجلاس میں موجود تھے۔اسمگلنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سرحد پر معاملات جن لوگوں کے ہاتھ میں ان سے ضرور سوال کیا جائے، ریاستی وسائل کو بروئیکار لاکر اسمگلنگ کا سدباب کیا جائے اور یہ صرف اس صورت ممکن ہوگا جب ادارے اپنا کام کریں گے۔عمر ایوب نے کہا کہ 5 جولائی 2022 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں تھی، اس وقت کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) حکومت نے کہا تھا کہ ہمارے مذاکرات ٹی ٹی پی کے ساتھ چل رہے ہیں، 8 نومبر کو قومی سلامتی کے اجلاس سے ایک دن قبل عمران خان نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان صرف امن کے حوالے سے کام کرے گا۔پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات جاری ر کھی گئی، اس وقت کی عسکری قیادت اور حکومت نے مذاکرات کے جاری رہنے کی بات کی تھی۔9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ مذکورہ واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ وہ ڈی چوک 5 منٹ میں خالی کروائیں گے، انہوں نے یہ کام کیا لیکن وہاں پر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار استعمال کیے گئے۔رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، تشدد اور انتہاپسندی کے حامی نہیں۔عمران خان سے لے کر تمام ورکرز کو سیاسی مقدمات میں الجھایا گیا ہے، ہم پرامن جماعت ہیں اور کسی قسم کے تشدد اور انتہاپسندی کے حامی نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام غیر جمہوری طور طریقوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ ملک آئین کی بنیاد پر چلنا چاہیے، حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اس تاثر کو رد کرنا چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنے لیے گنجائش ڈھونڈ رہے ہیں، وہ پاکستان کی عوام کے لیے جیل کے اندر ہیں اور انہوں نے جو اصول مؤقف اپنایا ہوا ہے اس پر وہ قائم ہیں، جو بھی بات چیت ہوگی اسی تناظر میں ہوگی۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ عمران خان 500 سے زائد دن ہوگئے ہیں، وہ اپنی پوزیشن پر قائم ہیں، مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کی ذمہ دار برائے نام حکومت ہوگی، مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔