
وفاقی وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی نئے فوجی آپریشن کا آغاز نہیں کیا جا رہا اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں اس موضوع پر بات ہوئی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’پچھلے دو دنوں سے خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور لگاتار قومی سلامتی کی میٹنگ کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں اور کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
خیال رہے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ وہ اپنے صوبے میں کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے کہا کہ کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔ میں بالکل واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ کسی نئے آپریشن کا آغاز کرنے کی بات ہی نہیں ہوئی۔ کوئی نیا آپریشن ہونے ہی نہیں جا رہا، نئے آپریشن کا شوشہ صرف کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے۔‘
طلال چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے گا اور آپریشن عزمِ استحکام کو آگے بڑھایا جائے گا۔
- آرمی چیف کا پاکستان کو ’ہارڈ سٹیٹ‘ بنانے کا بیان: ’طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی ہے‘
- ’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟
’میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کو کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ دہشتگردوں کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکتے تو ان کے دوست بن کر ان کے ساتھ بھی کھڑے نہ ہوں۔‘
وزیرِ مملکت برائے داخلہ نے پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ نے ایک ہفتے کے بعد جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے پر افسوس کیا اور اپنا بیان میں اسے سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا۔
طلال چوہدری کے مطابق ’خفیہ ایجنسیاں اور سکیورٹی فورسز معلومات دیتی ہیں، مگر آپ کے ادارے اس قابل ہی نہیں ہیں، آپ کے پاس ادارے ہیں نہیں ہیں، نہ خیبر پختونخوا میں اور نہ بلوچستان میں کہ وہ اس معلومات پر عمل کر سکیں۔‘
’فوج کا کام تو نہیں ہے کہ وہ ٹرین کی حفاظت کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رواں برس یکم جنوری سے 16 مارچ تک بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 1127 افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔
’اگر خیبر پختونخوا اور بلوچستان نہیں لڑیں گے تو دہشتگردی کیسے ختم ہو گی؟
صوبوں کو یہ جنگ ویسے ہی لڑنی پڑے گی جیسے وفاقی حکومت اور فوج لڑ رہے ہیں۔