
لائیو ٹرانسمیشن کا مقصد عوام تک براہ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا، الیکشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا،قانون بنانا پارلیمان، تشریح کرنا ہمارا کام ہے،ڈیپوٹیشن پرآنیوالے تمام افراد کو واپس بھیجا ہے، ان کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، اقدام سے 146 ملازمین کی ترقی،78 نئی تعیناتیاں ہوئی ہیں، سپریم کورٹ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب
اسلام آباد (الفجرآن لائن) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں شفافیت آئی ہے، پہلے بینچ دیکھ کر بتا دیا جاتا تھا کیس کا فیصلہ کیا ہو گا؟،اب مجھے خود معلوم نہیں ہوتا میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے،لائیو ٹرانسمیشن کا مقصد عوام تک براہ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا، پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے یا یوٹیوبرز بتاتے تھے،الیکشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا،قانون بنانا پارلیمان،تشریح کرنا ہمارا کام ہے،ڈیپوٹیشن پر آنیوالے تمام افراد کو واپس بھیجا ہے، ان کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، اقدام سے 146 ملازمین کی ترقی،78 نئی تعیناتیاں ہوئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد ہوا،جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہ ہوسکے جبکہ شریعت اپیلٹ بنچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9دن بعد مجھے بطور چیف جسٹس ایک سال ہو جائے گا، میرا سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا جو 4 سال سے نہیں ہوا تھا، جو چلے گئے ان پر تبصرہ نہیں ہونا چاہئے لیکن ہم کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے موقعوں پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی؟، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں شفافیت آئی ہے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے،کچھ لوگ پراسیکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے،لوگوں نے 30،40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے،کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے،ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے لیکن ان کو پتا کہ اس جج کا رجحان کس طرف ہے تو یہ سسٹم بھی ہم نے ختم کردیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے جمعرات کو چیف جسٹس کاز لسٹ کی منظوری دیتا تھا، کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا اب یہ اختیار ختم کردیا گیا ہے، مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنا اب رجسٹرار کا کام ہے،کاز لسٹ اب چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔انہوں نے کہا کہ رجسٹرار صاحبہ کو ہدایت ہے کہ اب 2ہفتے والی کاز لسٹ بھی شائع ہونی چاہئے، کاز لسٹ سے وکلاء کو بھی سہولت ہوتی ہے، لوگ چاہتے ہیں میرا کیس جلدی سے لگ جائے۔انہوں نے کہا کہ کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے،اس کا فیصلہ مقننہ نے کیا ہے کہ وہ اہمیت کے حامل کیسز ہیں، ہم نے خود بھی کچھ کیسز کے احکامات جاری کئے ہیں کہ وہ جلدی لگیں۔انہوں نے کہا کہ عوام چاہتی ہے کہ ہمارے مقدمہ جلد سے جلد لگیں اور پیسے فضول خرچ نہ ہوں، یہ فضول خرچی بھی روکی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پرانے صحافی کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا، اب تومقدمات کمیٹی لگاتی ہے، تبصرہ کیجیے لیکن سچ بولئے اور سچ بتائیے، سچ آگے پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے میں یہ بات بطور جج نہیں کہہ رہا۔انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ ہو براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔انہوں نے کہا کہ لائیو ٹرانسمیشن کا مقصد عوام تک براہ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا، پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے یا یوٹیوبرز بتاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افراد کو واپس بھیجا گیا ہے۔ڈیپوٹیشن پر آنے والے تین سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے جن کی مدت مکمل ہوچکی تھی انہیں واپس بھیجا ہے، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی،78 نئی تعیناتیاں ہوئی ہیں