
سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CASS) لاہور نےایک فکری و تجزیاتی سیمینار بعنوان “کیا امریکہ کی قیادت میں مغربی شراکت داری بکھر رہی ہے؟ عالمی نظام پر مضمرات اور پاکستان پر اثرات” کا انعقاد کیا۔ یہ سیمینار عالمی نظام میں مغربی قیادت کے انحطاط، اس کے مضمرات، اور پاکستان پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر سنجیدہ غور و فکر کا پلیٹ فارم ثابت ہوا۔
افتتاحی کلمات میں سابق سفیر محمد ہارون شوکت نے عالمی نظام کی نازک صورتحال پر خبردار کیا جو تجارتی جنگوں، بدلتے ہوئے عالمی ضوابط، اور غیر متوازن طاقت کے ارتعاش سے دوچار ہے۔
اُنہوں نے توجہ دلائی کہ ایسی کیفیت خطے میں عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے اور پاکستان کیلئے اس کے معاشی و جغرافیائی سیاسی مسائل سے نمٹنا مزید مشکل بنا سکتی ہے۔
کلیدی خطاب سابق سفیر جاوید حسین نے دیا، جنہوں نے عالمی اسٹریٹجک منظرنامے میں وقوع پذیر گہرے تغیرات کی نشاندہی کی۔
انہوں نے کہا کہ یک قطبی عالمی نظام کا زوال اور کثیر قطبی دنیا کا ابھار بین الاقوامی قانون کی جگہ طاقت کی سیاست کو فروغ دے رہا ہے، جس سے عالمی اداروں کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔
انہوں نے چین کے عروج کو امریکہ کی عالمی بالا دستی کیلئے ایک سنجیدہ چیلنج قرار دیا اور خبردار کیا کہ “ڈی گلوبلائزیشن” کے اس رجحان سے معاشی تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اس نئے منظرنامے میں قومی طاقت کی تعریف کو معیشت، ٹیکنالوجی، اور سائنسی ترقی سے منسلک کیا۔
ان کا مؤقف تھا کہ پاکستان کو چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ متوازن اور اسٹریٹجک تعلقات رکھنے چاہئیں، جبکہ بھارت کے خلاف ایک مؤثر دفاعی صلاحیت کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر رضوان نذیر نے امریکہ اور یورپی یونین کے مابین سیکیورٹی کے میدان میں پیدا ہوتی خلیج کا تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے یوکرین جنگ کے بارے میں مختلف حکمت عملیوں اور یورپی دفاعی خودمختاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کیا، اور بتایا کہ یہ اختلافات جنوبی ایشیا کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ امریکہ بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کو فروغ دے رہا ہے، جو اس خطے میں عسکری و تکنیکی عدم توازن کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
جناب شاہد نجم نے اکیسویں صدی کے بڑے جغرافیائی معاشی تغیر کا جائزہ پیش کیا، جس میں چین اور دیگر ایشیائی طاقتوں کے ابھار نے عالمی معیشت کا رخ بدل دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ اور یورپ کے باہمی اختلافات کے پاکستان پر ممکنہ معاشی اثرات، تجارتی خلل، اور اسٹریٹجک چیلنجز کی نشان دہی کی۔
انہوں نے اس صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے ایک عوامی مفاد پر مبنی جمہوری وژن، معاشی اہداف کی ازسرنو ترتیب، تجارتی فریم ورک کی مضبوطی، اور مسابقتی کارکردگی میں اضافہ تجویز کیا۔
صدر CASS لاہور، ائیر مارشل (ر) عاصم سلیمان نے اختتامی کلمات میں کہا کہ ہم عالمی امور کے ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑے ہیں۔ مغربی اتحادوں کا زوال اور قوم پرستی کا ابھار بین الاقوامی نظام کو نئے سانچے میں ڈھال رہا ہے۔
اس تغیر پذیر لمحے میں پاکستان کو خطرات کے ساتھ ساتھ منفرد مواقع بھی میسر ہیں۔ روایتی شراکت داریوں کے بکھرنے سے اُن اقوام کیلئے نئی جگہ نکلتی ہے جو بصیرت، تدبر، اور اصلاحات سے اپنا مقام ازسرِنو طے کرنا چاہیں۔ پاکستان کو بھی واضح سوچ، معیشتی اصلاحات، اور متنوع سفارت کاری کے ذریعے اپنا کردار محفوظ و مؤثر بنانا ہوگا۔
سیمینار کے اختتامی مباحثے میں شرکاء نے گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بیشتر نے بدلتے ہوئے عالمی نظام کے رجحانات سے اتفاق کرتے ہوئے اس پر تشویش ظاہر کی کہ پاکستان کو مستقبل میں پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کو فوری طور پر ایسی قومی حکمت عملی اپنانی چاہیے جو اس کی معاشی طاقت کو بڑھا سکے اور اسے نئی و ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کا اہل بنا سکے۔
یہ تقریب علمی، تدریسی، فکری اور تکنیکی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد کی بھرپور شرکت سے منعقد ہوئی۔ CASS ایک خودمختار تھنک ٹینک ہے جو قومی سلامتی کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کے خواہشمند ماہرین اور محققین کیلئے علمی مباحث کا اہتمام جاری رکھے ہوئے ہے