میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دراصل اسرائیل کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور اسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچا دیا گیا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ مجوزہ جنگ بندی معاہدہ 3 مراحل پر متشمل ہے۔
مجوزہ معاہدے کے تحت جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 6 ہفتے طویل ہوگا جس میں مکمل جنگ بندی ہوگی اور اسرائیل فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں میں سے نکل جائے گی۔ اس مرحلے میں غزہ میں موجود خواتین اور بزرگ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن کے بدلے میں سیکڑوں فلسطینی قیدی رہا ہوں گے، اسی مرحلے میں غزہ میں موجود امریکی مغوی بھی رہا کیے جائیں گے۔
اسی مرحلے میں ہلاک مغویوں کی لاشیں بھی ورثا کے حوالے کی جائیں گی اور شمالی غزہ سمیت پورے غزہ میں شہری اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔
اس دوران غزہ میں روزانہ 600 امدادی ٹرک داخل ہوں گے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ہزاروں خیمے تقسیم کیے جائیں گے۔
دونوں جانب سے جنگ بندی معاہدہ تسلیم کیے جانے کے بعد یہ مرحلہ فوری شروع کیا جاسکے گا۔
دوسرے مرحلے میں تمام زندہ مغویوں بشمول مرد فوجیوں کا تبادلہ ہوگا اور اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور پر انخلا کرے گی۔
تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا آغاز کیا جائے گا۔
عرب میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اسرائیل میں کچھ لوگ اس منصوبے سے خوش نہیں ہوں گے لیکن میں اسرائیلی حکومت سے کہتا ہوں کہ ہر طرح کے دباؤ سے قطع نظر اس معاہدے کی حمایت کرے۔