
بینچ میں چیف جسٹس کی شمولیت بارے اعتراض مستر،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ،الیکشن کمشنر کو بامعنی مشاورت کی ہدایت
کیا ہم اپنی بے عزتی کیلئے یہاں بیٹھے ہیں؟،بہت عدالتی سیکنڈالائزیشن ہوچکی،تذلیل ختم ہونی چاہئے،معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیج کر رویئے پر کارروائی کا کہیں گے، یہ بس کیس خراب کرنا چاہتے ہیں، ریمارکس
اسلام آباد (الفجرآن لائن) سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے پنجاب میں انتخابی ٹربیونلز کے قیام کے فیصلے معطل کرتے ہوئے الیکشن کمشنر کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے بامعنی مشاورت کی ہدایت کردی جبکہ پی ٹی آئی کا چیف جسٹس کی بینچ میں شمولیت کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ہم اپنی بے عزتی کیلئے یہاں بیٹھے ہیں؟،بہت عدالتی سیکنڈالائزیشن ہوچکی،تذلیل ختم ہونی چاہئے،معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیج کر رویئے پر کارروائی کا کہیں گے، یہ بس کیس خراب کرنا چاہتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے جبکہ پی ٹی آئی وکیل نیاز اللہ نیازی نے بنچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس بنچ کا حصہ نہ ہوں،کیس کسی دوسرے بینچ کو بھیجا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اعتراض سن لیا ہے تشریف رکھیں، یہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کے درمیان معاملہ ہے، کسی پرائیویٹ شخص کو معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟۔چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہم نے آپ سے پہلی سماعت پر پوچھ لیا تھا کہ کوئی اعتراض ہے؟ کیا آپ نے ہم پر کوئی اعتراض کیا تھا؟،تب آپ نے جواب دیا تھا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں،سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ مجھے آج بھی چیف جسٹس پر کوئی اعتراض نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم اپنی بے عزتی کیلئے یہاں بیٹھے ہیں؟ بینچ میں نے نہیں،کمیٹی نے تشکیل دیا ہے۔چیف جسٹس نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بہت ہوگیا،معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں گے، پہلے روز اعتراض اٹھانے والے کو فریق بنتے وقت کسی پر اعتراض نہیں تھا، بہت عدالتی سیکنڈالائزیشن ہوگئی ہے، ہم ایسے رویئے پر کارروائی کا کہیں گے، پہلے روز 2 رکنی بینچ میں شامل تھا، تب اعتراض نہیں کیا گیا، اعتراض تھا تو پہلے ہی دن اٹھانا چاہئے تھا، آج آکر زبانی بینچ پر اعتراض کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ پر اعتراض اٹھاکر ہیڈ لائنز بنوانا چاہتے ہیں، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل نیاز اللہ نیازی سے دریافت کیا کہ آپ بتائیں کیا اعتراض ہے؟ وجہ بتائیں آپ کو کیوں اعتراض ہے، پہلے دن آپ کو اعتراض نہیں تھا؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ کی تذلیل کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے، ہم دیکھیں گے کہ ان کیخلاف ایکشن لینا ہے یا نہیں، یہ بس کیس خراب کرنا چاہتے ہیں، نیاز اللہ نیازی کو جزوی ریلیف بھی ملا اس کے باجود اعتراض کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا آپ کو کتنے ٹریبیونلز چاہئیں؟،وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا ہمیں 9ججز چاہئیں، ہمیں مشاورت پر کوئی اعتراض نہیں، البتہ ڈکٹیشن اور مشاورت میں فرق اور توازن ہونا چاہئے۔جسٹس عقیل عباسی نے پوچھا کہ توازن سے کیا مراد ہے، یعنی دو الیکشن کمیشن کی مرضی کے اور دو ہائیکورٹ کی مرضی سے ہوں؟۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ہدایت کی کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ سے نام دیکھ لیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ ہم مشاورت کی طرف جارہے ہیں لیکن ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل ہونا چاہئے، بامعنی مشاورت کیلئے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل ہونا ضروری ہے۔سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بنچ کا 8 الیکشن ٹربیونلز کے قیام کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن دونوں معطل کرتے ہوئے حکم دیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے حلف کے بعد الیکشن کمشنر ان سے بامعنی مشاورت کریں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔