اسلام آباد (محمد ثاقب)سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CASS)، اسلام آباد نے اپنی کیٹالسٹ گفتگو سیریز کے تحت ‘چنار زنجیروں میں: جموں و کشمیر پر بھارت کا محاصرہ’ کے عنوان سے ایک خصوصی سیشن کا انعقاد کیا جس میں کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین جناب الطاف حسین وانی کے ساتھ ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایئر مارشل فاروق حبیب (ریٹائرڈ)، سینئر ڈائریکٹر CASS، نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ IIOJK کا مکمل طور پر بھارتی یونین میں انضمام BJP اور RSS کے ہندوتوا ایجنڈے کا مرکزی عنصر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد کشمیرمیں سخت سیکیورٹی اقدامات، بشمول کرفیو اور مواصلاتی بلیک آؤٹ، کیے گئے۔
ایئر مارشل حبیب نے مزید کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کے ان اقدامات کی تائید کی، جن میں علاقے کے ڈیموگرافکس کو تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی IIOJK میں مسلم اکثریت کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، جبکہ عالمی برادری نے ان مسائل پر زیادہ تر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
اپنے خطاب میں، معزز مقرر جناب الطاف حسین وانی، چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز، نے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں ہونے والی نمایاں سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں پر بات کی، جو پانچ سال کے مسلسل ریاستی جبر کی عکاسی کرتی ہیں۔ جناب وانی نے بتایا کہ جموں و کشمیر براہ راست دہلی کے کنٹرول میں ہے، جس میں منتخب حکومت کی عدم موجودگی ایک شدید جمہوری بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ ایک ‘پولیس اسٹیٹ’ کی طرح چل رہا ہے، جس میں شہری حکومت کی مستقل نگرانی میں رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تقریباً 19,000 افراد، بشمول سیاسی اور انسانی حقوق کارکن اسیر ہیں، جس سے 8 ملین سے زیادہ کشمیری متاثر ہوئے جنہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ضروری اشیاء اور طبی سپلائیز کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سارا علاقہ اس وقت شدید اقتصادی بحران میں مبتلا ہے، کاروباری لوگوں نے بھاری نقصانات اٹھائے ہیں جبکہ غربت، بھوک اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، جو مودی حکومت کے خوشحالی کے دعوؤں کے مکمل برعکس ہے۔ جناب وانی نے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے بارے میں بتایا کہ IIOJK کے ووٹروں نے اپنے ووٹ کے ذریعے مودی حکومت پرعدم اطمینان کا اظہار کیا۔ BJP کی ‘نرمی اور سختی’ کی پالیسی کے باوجود، وہ مقبوضہ کشمیر کی وادی میں تین حلقوں میں سے کسی بھی امیدوار کو کامیاب کرانے میں ناکام رہی، اور ان کے پراکسی امیدوار بھی شکست کھا گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی حمایت ان کے حقوق کے حامیوں کے ساتھ ہے۔
جناب وانی کے خیال میں کشمیر میں سیٹلر کالونییل پالیسیاں نافذ کی جا رہی ہیں، جن میں غیر مقامی صنعت کاروں کے ذریعہ زمینوں کا حصول بھی شامل ہے جس سے مقامی مسلم آبادی کے تناسب میں کمی آ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر کشمیریوں کو 500,000 سے زیادہ نئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کا اجراء ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد علاقے کے ڈیموگرافک ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنا ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے، جناب وانی نے پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے سخت قوانین کے تحت متعدد خلاف ورزیوں کی تفصیلات بتائیں۔ ان قوانین نے ماورائے عدالت قتل، من مانی گرفتاریوں اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے عمومی غلط استعمال میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری کے ردعمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کی طرف سے بھارت کے اقدامات کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے خلاف ہونے کے باوجود، ان زیادتیوں کا کوئی احتساب نہیں ہو سکا۔ جناب وانی نے میڈیا کی آزادی پر سخت پابندیوں اور اختلاف رائے کو دبانے پر بھی تنقید کی، جس سے معلومات کی ترسیل میں رکاوٹ اور علاقے میں انسانی حقوق کے محافظوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ IIOJK کے نوجوان خطے کی حقیقی صورتحال پوری دنیا کو بتانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بیرونی حمایت کی عدم موجودگی میں، اس نئی نسل نے نہ صرف خبر رسانی کا ایک ذریعہ بلکہ طاقت کا ایک عنصر بن کر ابھرے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی پریس کے علاوہ ایک سپورٹ بیس بھی قائم کر لی ہے
اپنے اختتامی کلمات میں، ایئر مارشل جاوید احمد (ریٹائرڈ)، صدر CASS-اسلام آباد، نے جموں و کشمیر تنازعے کو حل کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور سفارتی طریقوں پر زور دیا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ معاملات میں فعال حکمت عملی پر زور دیا۔ انہوں نے جدید مواصلاتی آلات کے فعال استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روایتی اور سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع بشمول فلم، ڈرامے، موسیقی وغیرہ، کے صحیح استعمال کی ضرورت ہے۔جس کے ذریعے کشمیر کی اصل صورت حال کو واضح کر کے عالمی رائے عامہ کو بھارت کے مذموم مقاصد کی نشاندہی کی جا سکے۔ صدر CASS نے آزاد کشمیر کو گورننس اور ایڈمنسٹریشن لحاظ سے ایک قابل تقلید ماڈل بنانے پر بھی زور دیا جو پورے کشمیر کے لیے رول ماڈل بن سکے۔