![](https://alfajaronline.com/wp-content/uploads/2024/06/1199704_1758259_Aurangzeb_updates.jpg)
اسلام آباد(الفجرآن لائن) حکومت نے آئندہ مالی سال 2024-25کاوفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت گریڈ ایک سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کے لیے 22 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 15 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔بجٹ میں وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے ہے جس میں 9 ہزار 775 ارب روپے سود کی ادائیگی کی جائے گی۔آئندہ مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں اقتصادی ترقی کی شرح تین اعشاریہ چھ فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 12فیصد متوقع ہے، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا ایک فیصد ہوگا۔ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے، وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7 ہزار 438 ارب روپے ہوگا۔وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3 ہزار 587 ارب روپے ہوگا، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 9 ہزار 119 ارب روپے ہوگی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے ہے جس میں 9 ہزار 775 ارب روپے سود کی ادائیگی کی جائے گی۔پینشن اخراجات میں کمی کیلئے سکیم متعارف کرادی گئی ہے جس کے تحت نئے ملازمین کیلئے مکمل فنڈڈ کونٹریبیوٹری پینشن اسکیم متعارف کروائی جائے گی اوروزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بجٹ کے ذریعے آئی ایم ایف کیس کو مضبوط کرنے کی کوشش کرینگے‘مالیاتی استحکام اور وسائل میں اضافے کیلئے صوبائی حکومتوں سے جامع ”قومی مالیاتی معاہدہ“کرینگے ‘مقامی ضرورت کیلئے سولر پینلز برآمد یا تیار کرنے پر رعایتیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کیپیسٹی کے بجائے قیمت کی بنیاد پرہوگی۔ وزیرخزانہ بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریرکر رہے تھے۔ اس دوران اپوزیشن نے شدید نعرے بازی اور شور شرابہ کیااور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔
وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے ایوان میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 15-2014 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ فروری 2024 کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے اور میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصاً میاں محمد نواز شریف صاحب، بلاول بھٹو زرداری صاحب، خالد مقبول صدیقی صاحب، چوہدری شجاعت حسین صاحب، عبدالعلیم خان صاحب اور جناب خالد حسین مگسی صاحب کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی اور معاشی چیلنجوں کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیش رفت متاثر کن رہی ہے۔ ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیےMarket Driven Economy میں تبدیل ہونا ہوگا۔تمام سیاسی قوتوں کے مل بیٹھنے کے مطالبات کی بازگشت کئی بار سنی ہے۔ ا?ج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ ہم اس موقع کو ضائع کرنے کے معمل نہیں ہو سکتے۔ میں تمام معزز اراکین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے لیے حکومت کی کاوشوں میں تعاون کریں۔بجٹ کی تفصیلات پیش کرنے سے پہلے میں اس بہت کے پس منظر کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ میاں محمد نواز شریف نے پاکستان میں 1990 میں جن معافی اصلاحات کی بنیاد رکھی ا±ن کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں اپنے تیارکردہ اصلاحاتی ایجنڈے کے ذریعے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پا کر ترقی کی رفتار کو بڑھایا جائے گا۔کچھ ہی عرصہ قبل پاکستان کی معیشت کو مشکل حالات کا سامنا تھا کیونکہ اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 2 ہفتوں سے کم مدت کی درآمدات کے لیے ہی کافی تھے۔ محض ایک سال میں پاکستانی روپے کی قدر میں چالیس (40) فیصد کمی واقع ہو چکی تھی۔ اقتصادی ترقی تقریباً صفر کے قریب تھی، اور افراط زر اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ لوگ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے تھے۔ ان حمالات سے لکھنا خاصا مشکل نظر آ رہا تھا۔5 پچھلے سال جون میں ا?ئی ایم ایک پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا، اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیر یقینی کیفیت تھی۔ نئے آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر انتہائی مشکلات پیدا کرسکتی تھیں۔ مجھے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی گزشتہ حکومت کی تعریف کرنی ہوگی جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ Stand By Arrangement معاہدہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت لیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی اور غیر یقینی کی صورتحال اختتام کو پہنچی۔گزشتہ چند مہینوں میں ہماری مسلسل کاوشوں کے نتائج ہمیں تسلی دیتے ہیں کہ ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں۔ مہنگائی، جو کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی توجہ کا مرکز ہے، مئی میں کم ہو کر تقریباً بارہ (12) فیصد کے قریب آگئی ہے۔ اشیائے خوردونوش اب عوام کی پہنچ میں ہیں۔ درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ زر مبادلہ کی شرح مستحکم رہی ہے۔ ہماری مالیاتی استحکام کی کوششیں ثمر آور ہو رہی ہیں اور سرمایہ کار معیشت کے متعدد شعبوں میں انویسٹمنٹ کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک کی جانب سے شرح سود میں کمی کا اعلان مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کی تائید اور ثبوت ہے۔معیشت کی بحالی کی خاطر انتھک محنت کے لیے وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔گزشتہ سال میں حاصل ہونے والی یہ کامیابیاں معمولی نہیں ہیں ان کے نتیجے میں ملکایک بحرانی صورتحال سے نکل چکا ہے اور دیرپا ترقی کے ایسے سفر کا آغاز ہو چکا ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ یہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کا عندیہ ہیں۔ انشائ اللہ۔۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ترقی کی موجودہ رفتار کو تیز کرتے ہوئے معاشی خود انحصاری کی منزل کو حاصل کریں۔ یہ ایسا کام نہیں کہ راتوں رات اسے کر دکھایا جائے۔ اس کیلئے ہمیں سخت محنت، ایک اپنی تیارکردہ اصلاحاتی پلان پر تمام اداروں اور عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اس امید کے ساتھ اپنے ریفارم ایجنڈے کو پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں، کہ پاکستان جلد ہی Inclusive اور Sustainable Growth کے دور کی طرف لوٹ ا?ئے گا۔ ہر کوئی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ راستہ بہت کٹھن ہے، ہمارےپاس options محدود ہیں مگر جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں یہ اصلاحات کا وقت ہے۔ 10۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹر کو مرکزی اہمیت دیں، اور چند افراد کی بجائے پاکستان کے عوام کو اپنی ترجیح بنائیں۔ حالیہ دہائیوں سے ہم Economic Imbalance کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کی وجہ وہ structural factors ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری، معاشی پیداوار اور برامدات دباو کا شکار ہیں۔ ماضی میں ریاست پر غیر ضروری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا جس کی وجہ سے حکومتی اخراجات ناقابل برداشت ہو گئے۔ اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیداواری صلاحیتہ اور کم امدن والی ملازمتوں کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس Low Growth Cycle سے باہر انے کے لیے آئیں Structural Reforms کو آگے بڑھانا اور معیشت میں Incentives کو صحیح کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ میں ایک Government-determined Economy سے ایکMarket Driven Economy میں تبدیل ہونا ہوگا۔ہمارے معاشی نظام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے بر امدات کو فروغ دینا ہوگا۔ ہماری معاشی ترقی کوکھپت کی بجائے سرمایہ کاری اور بچت کی کی بنیاد پرہونا چاہیے۔
معاشی نظام میں یہ تبدیلیاں لاتے ہوئے ، ہمیں Equity اور Inchusion کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں درج ذیل پہلوو¿ں کا احاطہ کرتے ہوئے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے: تمام modern economies کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات کرتے ہوئے ریاست کے Footprint کو صرفEssentail Public Services تک محدود کرنا ہوگا۔پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک سےسرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اورRegulatory and Investment Climate Improvements کرنا ہوںہمیں Targeted Welfare System کے ذریعے عوامی فلاح پر توجہ دینی ہوگی اور ایسی سبسڈیز کو کم سے کم کرنا پڑے گا جو Prices اور Efficiency میں بگاڑکا سبب بنتی ہیں۔Broad-based Fair Taxation Regime کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے۔جو سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرےکو ختم کرے۔ے اور Anti-Export Distortionsتوانائی کی قیمت کو کم کرنے کے لیے پاور سیکٹر میں مارکیٹ پر مینی اصلاحات کرنےکی ضرورت ہے۔جدید معیشت کے لیے صحت، تعلیم اور Skills Development کے موثر نظام کی تکمیل انتہائی اہم ہے۔ حکومت اپنی Home-grown Reforms کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے IMF کے ساتھ ایک Extended Fund Facility پر بات چیت کر رہی ہے۔
نئے پروگراموں میں Macroeconomic and Fiscal Stabilization، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے، قرضوں sustainable بنانے ، پاور سیکٹر اور SOES میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ گورننس اور Transparency کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس ضمن میں ہماری IMF کے ساتھ Staff Level Agreement کے سلسلے میں بات چیت مثبت انداز میں ا?گے بڑھ رہی ہے۔14 بجٹ خسارے کو کم کرنا ایک اہم مقصد ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہم ایک منصفانہ ٹیکس پالیسی کے ذریعے اپنی امدن بڑھائیں گے اور غیر ضروری اخراجات کو کم کریں گے لیکن یہ کمی پر ہونے والے اخراجات کو ترجیح دیتے ہوئے ان میں کوئی کمی نہیں لائی جائے گی۔ ہمیں energy سیکٹر کو viable بنانے کے اقدامات کرنے ہیں۔
ان اقدامات میں پیداواری لاگت کو کم کرنا انتہائی اہم ہے۔ ہمیں SOES کی تعظیم نو اور پرائیویٹائزیشن کرتی ہے اور good goverance اور levelplaying field کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینا ہے۔ ان سب اقدامات کا مقصد امدن سےزائد اخراجات کے دائمی مسئلے کو حل کرنا ہے۔15 میں حکومت کی اہم ترین ترجیح یعنی مہنگائی میں کمی پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ ایک سال قبل افراط زر ارتمیں (38) فیصد تک پہنچ کیا تھا جبکہ Food Inflation اڑتالیس (48) فیصد تھی۔ کم ا?مدن والے طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بہتر معاشی حکمت عملی کے نتیجے میں مہنگائی میں نمایاں کمی ائی ہے۔ مئی 2024ئ میں Conama Pics Index گیارہ اعشاریہ اٹھ (11.8) فیصد تھا جبکہ Food Inflation صرف دو اعشاریہ دو (2.2) فیصد تھی۔ حکومت نے مہنگائی کو سنگل ڈکوٹ تک لانے کے لیے انتھک محنت کی ہے اور ہم ان کوششوںکو جاری رکھیں گے۔16۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان Tat-to-GDP Ratio کے حوالے سے دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات ہماری معاشی کامیابیوں کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ FBR میں کثیر الجہتی اقدامات پہلے سے جاری ہیں۔ وزیر اعظم و سکویلا نویشن، ٹیکس پالیسی اور FBR میں انتظامی اصلاحات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور ان کی واضح ہدایات ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود لوگوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس حیف میں وسعت لائی جائے۔17۔ ہم نے تاجر دوست سکیم متعارف کرائی ہے جس کا مقصد wholesalers, retailers اور dealers کو رجسٹر کرتا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اسکیم میں ہزار چار سو (3400 ) رجسٹریشن کے ساتھ کامیابی سے اگے بڑھ رہی ہے۔ انے والے وقت میں FBRلوگوں کو ٹیکس میں میں لانے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرے گا۔ اس حوالے سے ExistingData کو موثر طور پر استعمال کیا جائے گا۔18 وفاقی حکومت اکیلے مالیاتی استحکام کے ہدف کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی لیے وفاقی حکومت ملک کے مجموعی وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ان کوششوں کو تقویت دینے کے لیے، ہم تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع "National Fiscal Pact” تجویز کرتے ہیں۔ ہم ا?ہنگی اور یگانگت خود کفالت کے ہدف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔اس سلسلے میں ہماری صوبوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔19۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، حکومتی اخراجات میں کمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی کا دوسرا اہم ستون ہے۔ ہم غیر ضروری اخراجات کو کم کر رہے ہیں۔ حکومت پینشن کے نظام میں اصلاحات لا رہی ہے، جس کی تفصیلات میں اپنی تقریر کے اگلے حصے میں بیان کروں گا۔ لی پی ایس 1 سے 16 کی تمام خالی ا?سامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے، جس سے 45 ارب روپے سالانہ کی بچت ہونے کا امکان ہے۔20 وفاقی حکومت کے تجسم کو کم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تحلیل دی گئی جس نے حکومتی ڈھانچے کا بغور جائزہ لے لیا ہے اور بہت جلد اپنی سفارشات کا بینہ کو پیش کرے گی۔ جبکہ وفاقی حکومت کی right sizing کے لیے تیاری کی جارہی ہے۔ حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اسے بہترین تکنیکی عملہ اور مشاورت دستیاب رہے۔ اس مقصد کے لیے ہر ڈویڑن کو”Capacity Development and Technical Assistance کی مد میں الگ رقوم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے اور برا?مدات کو بڑھانے کے لیے Regulatory Franwork کو اسان بنانا انتہائی اہم ہے۔ اس سلسلے میں BOI کے تحت Pakistan Regulatory Modemisation Initiative کا ا?غاز کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد حکومت کی ریگولیٹری فریم ورک کو ا?سان بنانا اور Automation کے ذریعےBusiness environment کو بہتر کرنا ہے تا کہ سرمایہ کاری ، برآمدات اور معاشی ترقی کی رفتار کوبڑھایا جاسکے۔ 22 کسی بھی حکومت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ Goods and Services کیProcurements میں صرف ہوتا ہے۔ Procurement کے نظام میں ا?سانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی بچت بھی کی جاسکتی ہے۔ریسرچ کے مطابق E-Procnennent سے سرکاری خرچ میں دس (10) سے میں (20) فیصد تک کی کمی لائی جاسکتی ہے۔ یہ نظام حکومتی Procurements میں کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ نظام سینتیس (37) وزارتوں جبکہ دوسو اناسی (279) Procuing Agencies میں نافذ ہو چکا ہے۔ اس کے تحت وفاقی حکومت میں چودہ (14) ادب روپے کی Procurement ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ Procuing Agencies کے ا?ٹھ ہزار پانچ سو (8500) ملازمین کی تربیت مکمل کی جاچکی ہے اور دس ہزار پانچ سو پینتالیس (10,545) سپلائزر اس نظام میں رجسٹر ہوچکے ہیں۔ مزید برا?ں صوبائی حکومتوں اور مختلف وفاقی اداروں کے ساتھ E-Procurennent کی Integration کے لیے Agreements کیے جاچکے ہیں۔ 23 مجھے یقین ہے کہ اخراجات اور وصولیوں کے ضمن میں کوششیں وفاقی حکومت کیلئے وسائل کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوں گی جس سے Human Resource Development, SocialProtection and Climate Resilience کیلئے وسائل دستیاب ہوں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کو کاروبار نہیں کرنا چاہیے۔ وزیرا علم Commercial Space میں حکومتی عمل دخل کو کم کرنے اور نجی شعبے کو فروغ دینے پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ہم نے جکاری کو ایک کلیدی ترجیح بتایا ہے