![](https://alfajaronline.com/wp-content/uploads/2024/06/65ad9a792519d.jpg)
اسلام آباد(الفجرآن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بچوں کے دودھ اور سٹیشنری پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کردی جبکہ خیراتی اور فلاحی ہسپتالوں پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کی حمایت کر دی،کمیٹی نے غیر منافع بخش یا فلاحی اداروں کے نام پر فائدہ اٹھانے والوں کا ریکارڈ مانگ لیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر فاروق ایچ نائی نے کہا کہ پاکستان میں ہر آدمی کا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے جب تک سب لوگوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہوں گے، اس وقت تک معیشت کو دستاویزی شکل دینا مشکل ہے۔ایف بی آر حکام نے اجلاس کو بتایا کہ اسٹیشنری آئٹمز پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، دودھ اور بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ ضرورت مندوں کو نقد امداد فراہم کی جائے گی،ڈبہ دودھ، بچوں کے دودھ اور اسٹیشنری پر ریلیف سے ٹیکس وصولی میں 107 ارب روپے کی کمی ہو گی۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ملک میں 40 فیصد سٹنٹنگ ریٹ ہے، دودھ پر سیلز ٹیکس بڑھانا زیادتی ہے۔ اس پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ انوشے رحمان نے کہا کہ یہ تجویز ظالمانہ ہے۔ جس پرقائمہ کمیٹی نے بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کردی۔ایف بی آر حکام نے مزید بتایا کہ افغانستان سے درآمد شدہ سبزیوں اور پھلوں پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے،یہ اقدام آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کے تحت لیا گیا ہے،آئی ایم ایف نے تمام استثناء ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے،جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئی ایم ایف نے غذائی اشیاء پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا کہا تھا،آئی ایم ایف نے صرف بنیادی غذائی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا کہا تھا:کیا آلو اور پیاز بنیادی غذائی اشیاء میں نہیں آتے جس پر ایف بی آر حکام نے کہا کہ یہ درآمدی اشیاء ہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ پاکستان کا نہیں آئی ایم ایف کا بجٹ ہے