![](https://alfajaronline.com/wp-content/uploads/2024/06/image_editor_output_image1781769497-1719425678277-1024x842.jpg)
اسلام آباد(الفجرآن لائن)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ اگر ریاست عوام کو تحفظ اور معاش نہیں دے سکتی ہے تو اس کو ٹیکس مانگنے کا بھی کوئی حق نہیں‘ملٹری آپریشنز مسائل کا حل نہیں ہیں سوات اور قبائلی اضلاع کے عوام کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا‘ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے حکومت درپیش مسائل پر توجہ دے۔
بدھ کو قومی اسمبلی اجلاس کے موقع پر نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اقتصادی امور کا ماہر نہیں ہوں اور اس ایوان میں مجھ سے زیادہ قابل اراکین موجود ہیں جو بجٹ پر بہتر بات کر سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ 1988سے ایوان میں کئی بجٹ سن چکا ہوں اور ہر بجٹ پیش کرنے والی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ عوام دوست اور ملکی ترقی کا ضامن ہے مگر ان تمام دعوؤں کے باوجود آج معاشی طور پر ملک کہاں کھڑا ہے اس کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم دیوالیہ پن کے کنارے کھڑے ہیں انہوں نے کہاکہ آج بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ ٹیکس لگانے پر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ عام لوگوں میں جو بات کہی جارہی ہے اس کا تعلق ٹیکسوں کے ساتھ ہے ملک کے ہر شعبے میں ٹیکسز لگا دئیے گئے ہیں اور اسی کی بنیاد پر مہنگائی کا طوفان آئے گا جسے روکا نہیں جاسکے گا انہوں نے کہاکہ ہم جس چیز کی ڈیمانڈ قوم سے کرتے ہیں جب حکمران اس طرح کا ڈیمانڈ کرتے ہیں تو قوم کے بھی حقوق ہوتے ہیں اگر قوم کو حقوق نہیں دے سکتے ہیں تو ٹیکس وصول کرنے کا بھی حق نہیں ہے انہوں نے کہاکہ قوم دو چیزیں ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور دوسر ا معاشی خوشحالی مانگتی ہے ہر شخص اپنے بچوں کیلئے خوراک چاہتا ہے مگر ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں صورتحال فاقوں تک پہنچ چکی ہے کاروبار ختم ہوچکے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم نے اپریشنز کئے لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا عوام نے اپنے ہی ملک کے اندر ہجرت کی ہماری قبائلی خواتین جو اپنے خاص ماحول اور کلچر کی عادی تھی ان کو بازاروں میں بھیک مانگنے پر مجبور کیا اور اس کے چادر کو تار تار کیا انہوں نے کہاکہ ابھی میرے پاس محسود قبیلے کا وفد آیا کہ گذشتہ اپریشن کے نقصانات کا بھی ازالہ نہیں کیا گیا ہے کیا چار لاکھ پر گھر کا غسل خانہ بھی بن سکتا ہے کہ انہیں چار لاکھ روپے دئیے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ گذشتہ 9ماہ سے چمن بارڈر پر لوگ بیٹھے ہیں ان پر وہ شرائط لگائی جارہی ہیں جو پوری دنیا میں سرحدوں پر رہائش پذیر لوگوں پر نہیں لگائے جاتے ہیں انہوں نے کہاکہ پاک افغان بارڈر طے شدہ نہیں ہے کیا افغانستان اس کو مانتا ہے کیا یہ کسی سمجھوتے کی بنیاد پر ہوا تھا کہ ایک ہی گھر اور مسجد دونوں علاقوں میں ہیں چمن میں چلے جائیں بہت سارے لوگوں کے گھر پاکستان جبکہ زمینیں افغانستان میں ہیں ان کوکوئی متبادل روزگار نہیں دیا جارہا ہے اورا ب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گھروں کے اندر ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات بیچ دئیے ہیں اب گھروں کے دروازے اور کھڑکیان بیچنے پر مجبور ہیں اور ریاست اس حد تک شقی القلب ہوچکی ہے کہ ان کو احساس تک نہیں ہے کہ یہ کیا کریں گے انہوں نے کہاکہ میرے پاس جنوبی وزیر ستان کا وفد آیا انگور اڈے کی بھی یہی صورتحال ہے حکومت اپنے شرائط ایسے لگائے جو ان کیلئے قابل عمل اور قابل برداشت ہوآپ سے اختلاف رائے کرنے والے کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ آپ ہزار ٹیکس لگائیں میں نے چالیس سال سیاست کی ہے ملک کے عوام کسی صورت بھی ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ عوام کو آپ پر اعتماد نہیں ہے اور یہ بات کسی ایک حکومت کیلئے نہیں کر رہا ہوں عوام کو پتہ ہے کہ ان کا ٹیکس ان کی فلاح و بہبور کیلئے خرچ نہیں ہوگا اور یہ ریت ہمیں ورثے میں ملی ہے برصغیر کے باسیوں نے بھی فرنگیوں کو ٹیکس نہیں دیا تھا انہوں نے کہاکہ جب میرا پیسہ میری فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوگا تو کوئی بھی ظالمانہ ٹیکس نہیں دے گا انہوں نے کہاکہ چین کا اہم مہمان آتا ہے تو ہمارے وزیر اعظم اور آرمی چیف چین گئے مگر سفارتی حوالے سے ہمارے وزیر اعظم کامیاب نہیں آئے ہیں اور جب ان کا مہمان یہاں آیا تو ہم سب حاضر ہوئے اور اپنی بھرپور تائید اور دوستی کے حوالے دئیے مگر اس نے کہاکہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں ہے کس بنیاد پر چین یہاں پر سرمایہ کاری کرے گا انہوں نے کہاکہ عزم استحکام کے نام سے اپریشن کا آغاز کیا جارہا ہے کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ بین الاقوامی ایجنڈہ نہیں ہے ہم کیوں اس کو نظر انداز کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں جنوبی اضلاع میں امارات اسلامیہ قائم ہوجائے گی کیونکہ مغرب کے ساتھ ہی تمام تھانے بند ہوجاتے ہیں انہوں نے کہاکہ یہ اپریشن عزم استحکام نہیں بلکہ عدم استحکام کی سمت جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ اگر اس طریقے سے قوم کو ہانکا جائے اور اداروں کو ختم کیا جائے تو کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا‘بتایا جائے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے خاتمے کا فیصلہ کس کے مشورے کے ساتھ کیا گیا۔