
ایک سے دو ماہ میں آئی پی پیز بارے خوشخبری سنائینگے،فکس چارجز بڑھا کر فی یونٹ قیمت میں کمی کی ہے، اقدام سے بہتری آئے گی
آئی پی پیز بارے بات کرنے پر عوام کا شکر گزارہوں جو بات منسٹری کھل کر نہیں کرسکتی تھی انہوں نے کی، ملک میں بجلی کے یکساں استعمال کیلئے صنعتوں کا لگنا اہم، وزیراعظم چین کیساتھ ری لوکیشن آف انڈسٹریز کا اہم منصوبہ شروع کرچکے ہیں، صنعتی استعمال بڑھنے سے لوڈ بہتر استعمال ہوگا، عوامی اخراجات کم ہوں گے، وزیر توانائی کا نیشنل یوتھ کنونشن سے خطاب
اسلام آباد : وفاقی وزیرتوانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ ایک سے دو ماہ میں آئی پی پیز بارے خوشخبری سنائیں گے،
کپیسٹی پیمنٹ لوڈشیڈنگ سے بچنے کی قیمت ہے،عوام2 گھنٹے لوڈشیڈنگ برداشت کرلیں تو 50 ارب کا فائدہ ہوگا،فکس چارجز کو بڑھا کر فی یونٹ قیمت میں کمی کی ہے، اقدام سے بہتری آئے گی، آئی پی پیز بارے بات کرنے پر عوام کا شکر گزارہوں جو بات منسٹری کھل کر نہیں کرسکتی تھی انہوں نے کی، ملک میں بجلی کے یکساں استعمال کیلئے صنعتوں کا لگنا اہم ہے، وزیراعظم چین کیساتھ ری لوکیشن آف انڈسٹریز کا اہم منصوبہ شروع کرچکے ہیں، صنعتی استعمال بڑھنے سے لوڈ بہتر استعمال ہوگا، عوامی اخراجات کم ہوں گے۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں نیشنل یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرتوانائی اویس لغاری نے کہا کہ توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے اقدامات جاری ہیں، شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بہتری کی جانب لے جانے کیلئے حکومت سمیت متعدد ادارے اس پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 30 فیصد انرجی ری نیو ایبل ہے،انسٹال کپیسٹی 39 ہزار ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ہم نے اتنی صلاحیت کیوں بڑھائی ہوئی ہے تو آپ کی صلاحیت اتنی ہی ہے جتنی آپ کو ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر سال جب درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر جاتا ہے تو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 300 سے 400 میگا واٹ کی کمی آتی ہے، ہر سال ہر پلانٹ کو کچھ دنوں کے بند بھی کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد آپ کے 34 ہزار میگا واٹ بچتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ طلب کے مطابق منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے، اس وقت آپ کے پاس 29 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بجلی جو ہر وقت استعمال کیلئے ہوتی ہے وہ صرف 7 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ سب سے زیادہ طلب 24 ہزار میگا واٹ ہے، ایک ہزار 845 میگا واٹ صرف اس لئے سسٹم میں پڑا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کو 85 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے، اس کے علاوہ اس ایک ہزار 845 میگا واٹ کی کوئی طلب نہیں ہے، اس کیلئے ہمارا سسٹم 50 ارب روپے سالانہ ادا کر رہا ہے،عوام2 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرلیں تو 50 ارب کا فائدہ ہوگا، یہ وہ قیمت جو وہ علاقے ادا کر رہے ہیں جہاں لائن لاسز نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 3 ہزار 831 میگا واٹ سسٹم میں اس لئے رکھا ہوا ہے تا کہ آپ 874 گھنٹے لوڈشیڈنگ سے بچ سکیں، سال میں 8 ہزار 760 گھنٹے ہوتے ہیں، ان میں سے اگر آپ 10 فیصد بجلی برداشت کرلیں تو 100 ارب کی کپیسٹی پیمنٹ نہیں دینی پڑے گی، کپیسٹی پیمنٹ لوڈشیڈنگ سے بچنے کی قیمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیوں زیادہ کپیسٹی پیمنٹ کر رہے ہیں وہ اس لئے کہ ہماری بجلی مہنگی ہے، اس میں شک نہیں کہ ہم ریجن میں سب سے مہنگی بجلی فراہم کر رہے ہیں، جب تک اس کا اعتراف نہیں کریں گے، اس کو حل بھی نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ 874 گھنٹے لوڈشیڈنگ کرکے 100 ارب کا خرچہ کم کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سسٹم میں بہت زیادہ فرق ہے، موسم سرما میں 7 ہزار مگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں اور گرمیوں میں صرف 80گھنٹے کیلئے24 ہزار میگا واٹ استعمال کرتے ہیں،باقی کپیسٹی ایسے ہی پڑی ہوتی ہے، 9 ہزار میگا واٹ بجلی صرف آپ کے پنکھے استعمال کرتے ہیں، 120 میگا واٹ اوسطا فی پنکھا استعمال کرتا ہے،اب 30،30 واٹ کے پنکھے آگئے ہیں، زیادہ سے زیادہ کم بجلی استعمال کرنے والے پنکھوں کا استعمال کرنا بجلی بچت کی جانب اہم قدم ہوگا تا کہ گرمیوں میں بجلی طلب میں کمی اور سردیوں میں اس میں اضافہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کا یکساں استعمال ہو، کم سے کم بجلی بغیر استعمال رہے اس کیلئے ملک میں صنعتوں کا لگنا اہم چیز ہے، وزیراعظم اس سلسلے میں چین کیساتھ ری لوکیشن آف انڈسٹریز کا اہم منصوبہ شروع کرچکے ہیں، جتنا زیادہ صنعتی استعمال بڑھے گا،اس سے لوڈ کا استعمال بہتر ہو گاور آپ کے اخراجات کم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباداور پنجاب کی 5 کمپنیوں میں 3 ہزار 107 ارب کی بلنگ ہوتی ہے، اس میں صرف 100 ارب کا نقصان ہوتا ہے، پشاور، فاٹا، قبائلی اضلاع، سکھر، حیدآباد، کوئٹہ میں کل 11 سو ارب کی بلنگ ہوتی ہے اور 400 ارب کا نقصان ہوتا ہے، یہ وہ نقصان والے علاقے ہیں جن کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس کو بہتر کرکے ان علاقوں کو اب ہم نے ہٹ کرنا ہے اور نقصانات کو پورا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں ہماری حکومت آئی، ہم بجلی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے نئے پلانٹ لگائے، اس وقت امریکی ڈالر کی قیمت 100 روپے تھی، اس وقت صارف پر کپیسٹی چارجز کا بوجھ 10 روپے فی یونٹ تھا، جب امریکی ڈالر 200 روپے پر پہنچا، انٹرسٹ ریٹ بڑھا تو فی یونٹ 14 روپے پر پہنچا، جب ڈالر 300 روپے پر گیا تو فی یونٹ 18 روپے پر چلا گیا، اگرآج بھی 2018 کی سطح پر ڈالر اور شرح سود ہو تو بلوں میں 8 روپے فی یونٹ کی کمی ہوتی اور 900 ارب روپے سالانہ کی بچت ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اوسط یونٹ 44 روپے کا ہے، ڈھائی کروڑ میٹرز تقریبا 90 فیصد صارفین میں سے کسی کو10 روپے، کسی کو 15روپے اور کسی کو 18 روپے کا یونٹ بھیج رہے ہیں، مہنگی بجلی کو سستا کرکے دے رہے ہیں، اس کی قیمت کون ادا کر رہا ہے، اس کو وزارت خزانہ ادا کرتی ہے، یہ آپ کے ٹیکس سے ادا کیا جاتا ہے اور وہ جنہیں ہم 44 روپے سے مہنگی فی یونٹ بجلی دے رہے ہیں، وہ بھی ان غریب صارفین کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمرشل صارف آج 75، 77 روپے کا فی یونٹ استعمال کر رہا ہے، وہ 30 روپے اضافی ادا کر رہا ہے، پاکستان کی انڈسٹری 244 ارب روپے کا بوجھ اٹھا رہی تھی، صنعتوں کی مقابلے کی صلاحیت ختم ہو رہی تھی، اس بوجھ کو کم کرکے 70 ارب تک لے لائے، اس کا بوجھ حکومت نے اٹھایا ہے، اس کو کراس سبسڈی میں کمی کہتے ہیں جس کیلئے بجٹ میں قدم اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فکس چارجز کو بڑھا دیا ہے، فی یونٹ قیمت میں کمی کی ہے، اس سے بہتری آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ وزارت ملتے ہی آئی پی پیز پر کام شروع کردیاتھا جب لوگوں کو پتا چلا تو انہوں نے اس پر آواز اٹھانا شروع کردی، ا نہوں نے آئی پی پیز پر پریشر ڈالا، جو بات منسٹری کھل کر نہیں کرسکتی تھی، انہوں نے کی، میں ان کا شکر گزار ہوں، ہمارے کچھ معاہدے عالمی سطح پر ضمانت یافتہ ہیں، ہمیں معاہدوں کے اندر رہتے ہوئے انہیں قائل کرکے بہتری کی طرف جانا ہے، ہم نے اس سلسلے میں اتنا کام کیا جتنا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، آئندہ ایک سے دو مہینے میں حکومت آئی پی پیز سے متعلق ایسی خوش خبریاں دے گی جہاں سب کیلئے ون، ون صورتحال ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 10 سال میں 18 ہزار میگا واٹ بجلی مزید سسٹم میں آرہی ہے، وہ بجلی کونسی ہونی چاہیے پانی سے بننے والی فی یونٹ 30یا 20 روپے والی بجلی یا شمی توانائی سے بننے والی 11 روپے فی یونٹ والی بجلی جس کی کل کے الیکٹرک سے بڈنگ کھولی ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں لوڈشیڈنگ ختم کرنی تھی، اس وقت کوئی مدد کو تیار نہیں تھا، چین نے مدد کی، اس وقت وہ بجلی گھر سستے تھے، جس طرح سے پچھلے پلانٹ کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اسی طرح آئندہ کے پلانٹس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، اس کو ہم دیکھ رہے ہیں، اس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گیس پر کھانا پکانا، پانی گرم کرنا اور ہیٹر چلانا گیس ضیاع کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا طریقہ ہے، یہ گیس کے ساتھ اور ملک کے ساتھ ظلم ہے۔انہوں نے کہا ان سردیوں میں حکومت بجلی سستی کریگی تاکہ گیس کے بجائے آپ بجلی پر پانی گرم کریں، ہیٹر چلائیں، تاکہ بجلی کی مانگ بڑھے، اس کی قیمت کم ہو اور گیس کی طلب کم ہو۔