
نئی دہلی ہندو قوم پرستوں کی وجہ سے بھارت میں مساجد شدید خطرات سے دوچارہیں اورمودی سرکار کے دور میں مسلمانوں کی مساجد اور مقدس مقامات پر قبضے کرنے کی رفتار میں اضافہ ہواہے۔حال ہی میں بھارتی ریاست سنبھل میں صدیوں پرانی تاریخی مسجد بھی انتہا پسند ہندوؤں کے نشانے پر آگئی اورانتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کو مندر پر تعمیر کرنے کا ایک جھوٹا دعویٰ کیااورہندو قوم پرست اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے عدالت پہنچ گئے۔ہندو قوم پرستوں کی تاریخی مسجد کی حفاظت پر مامور مسلمانوں پر تشدد اور ظلم کی انتہا، 4 نمازی بھی شہید کئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں نے مسجد پر قبضے کی کوشش پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے اسے متصبانہ سوچ قرار دیا۔اپوزیشن رہنما نے کہا کہ مسجد پر قبضے کی کوشش مذہبی نہیں بلکہ مودی سرکاری کا سیاسی ایجنڈا ہے،مسجد تنازع کو بڑھا کر مودی سرکار آئندہ انتخابات میں یہاں سے ہندو ووٹوں کی تعداد بڑھنا چاہتی ہے،۔مسجد تنازع پر مذہبی تناؤ میں اضافے کے بعد سڑکیں بند اور علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔انسانی حقوق کی کارکن سوشیتا مہاجن کا کہنا ہے کہ؛مودی حکومت اور ار ایس ایس مسلسل تاریخ کا غلط استعمال کر کے اپنی غلط روایات کو دہرا رہی ہے۔مسجد انتظامیہ کے رکن مشہود علی فاروقی کا کہنا ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسجد کا مندر پر تعمیر کا دعویٰ جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ہمارے پاس مسجد کی تعمیر کے حوالے سے تمام دستاویزات موجود ہیں، اس کے باوجود اس کیس کے نتائج کے لیے ہمیں 10 سے 20 سال انتظار کرنا ہوگا۔ادھرہندو قوم پرست راکیش کمار جین نے کہا کہ مسلمانوں سے اپنے تمام مندر چھین کر رہیں گے، ہمارے پاس مودی سرکار کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔معروف وکیل شارخ عالم کا کہنا ہے تھا کہ؛بھارتی قانون میں مسلمانوں سمیت تمام شہریوں کو برابر شہری حقوق حاصل ہیں۔بھارتی آئین کے مطابق عبادت گاہوں کی حیثیت کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا۔مودی کے بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنا ثابت کرتا ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہوتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں مذہبی آزادی نہیں ہے۔