![](https://alfajaronline.com/wp-content/uploads/2024/06/5A903D13-7A3D-4E0D-BCDB-17454D37B190.webp)
اسلام آباد(الفجرآن لائن)رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں‘افغانستان سے تجارت کی بندش سے قبائل عوام کی معاشی شہ رگ توڑ دی ہے،چمن میں دھرنا جاری ہے مگر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں‘آپ لوگوں کی بغاوت کی طرف لے جا رہے ہیں، تجارت فوری بحال اور طے شدہ معاوضہ جاری کیا جائے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پارلیمنٹ ہی طاقت کا سرچشمہ ہو۔ علامہ ناصر عباس نے کہا مخلص حکمران عوام کااعتماد حاصل کرتے ہیں‘ یہاں دشمن فائدے اٹھا رہے ہیں‘فاٹا کے عوام کیساتھ انضمام سے قبل وعدے کئے گئے مگر پورے نہیں ہوئے،ہمیں تقسیم کیا جارہا ہے۔ ہمیں علاقائیت اور قومیت کے نام پر تقسیم جارہا ہے۔
یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کا انضمام یقین دہانیوں کی بنیاد پر ہوا تھا، اس وقت چمن میں دھرنا بیٹھا ہے، ابھی ماحول یہ ہے کہ نا ان کے دھرنوں کے ساتھ کوئی بات کر رہا ہے اور افغانستان کے ساتھ جو تجارت کی بندش ہے اس نے قبائلی عوام کی معاشی شہ رگ توڑ دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت الزامات لگا رہی ہے کہ اسمگلنگ ہو رہی ہے، ہم کبھی بھی اسمگلنگ کی حمایت نہیں کرتے، ہم بہت افسوس سے کہتے ہیں کہ ابھی تک جتنے بھی دھرنے بیٹھے ہیں اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، کیا وہ ملک کے شہری نہیں ہیں؟ جب بیروزگاری بڑھے گی تو فائدہ کس کو ہوگا؟ اس سب سے ملک میں بد امنی بڑھے گی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ وفاقی حکومت شاید اس علاقے سے کوئی انتقام لے رہی ہے، میں اپیل کرتا ہوں کہ ان لوگوں پر رحم کریں، آپ جو کر رہے ہیں اس سے آپ لوگوں کو بغاوت کی طرف لے جارہے ہیں۔اس قیصر نے بتایا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دھرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، دوسرا یہ کہ جتنے معاوضے کا آپ لوگوں نے اعلان کیا وہ جاری کیا جائے، افغانستان کے ساتھ تجارت کی بندش کو بھی کھولا جائے، اگر آپ سنجیدہ ہیں تو صوبائی حکومت کے ساتھ بات کریں، یہ سیاسی مسائل ہیں اور پارلیمانی کمیٹی بنائیں اور ان سے کہیں کہ وہ ان مسائل کو دیکھے لیکن وہ کمیٹی ہو جس کے پاس طاقت ہو، میں تنبیہ دیتا ہوں کہ اگر بجٹ میں فاٹا اور پاٹا پر کوئی ٹیکس لگایا گیا تو ایسی صورتحال بنے گی امن و امان کی جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوگی۔
اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ اس علاقے کو حکومت نے دیا کیا ہے؟ آج بھی جس علاقے سے میں ہوں وہاں بجلی کی بندش سے متعلق بہت بڑا مظاہرہ ہو رہا ہے، جتنے مسائل ہیں اس کو پارلیمان میں لائیں اور اس کا حل نکالیں اور عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے ہم پارلیمنٹیرین کے طور پر کام کر رہے ہیں، جو بجٹ آرہا ہے اس میں ان علاقوں کے لیے پیکج دیں اور جو مختلف دھرنے بیٹھے ہیں ان سے بامعنی مذاکرات کریں، ہم اسمبلی میں بھی اس پر بات کریں گے۔اس موقع پر خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں محمود خان اچکزئی، اور علامہ راجہ ناصر عباس بھی موجود تھے۔ اسد قیصر نے کہا کہ بجٹ پیش ہونے سے پہلے ہم قبائلی اضلاع کے ایشو بتانا چاہتے ہیں۔قبائلی اضلاع کو یہ کہا گیا تھا کہ ان کو بجٹ میں تین فیصد دیا جائے گا۔ تعلیم کے شعبے میں بھی قبائلی اضلاع کے لئے بھی بجٹ مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن قبائل اضلاع کیساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ اس وقت چمن کا بارڈر بند ہے، افغانستان کیساتھ تجارت رک گئی ہے۔ جس سے قبائلی اضلاع کے عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ دھرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، دوسرا یہ کہ جتنے معاوضے کا آپ لوگوں نے اعلان کیا وہ جاری کیا جائے، افغانستان کے ساتھ تجارت کی بندش کو بھی کھولا جائے، اگر آپ سنجیدہ ہیں تو صوبائی حکومت کے ساتھ بات کریں، یہ سیاسی مسائل ہیں اور پارلیمانی کمیٹی بنائیں اور ان سے کہیں کہ وہ ان مسائل کو دیکھے لیکن وہ کمیٹی ایسی ہو جس کے پاس طاقت ہو۔ انہوں نے کہا میں تنبیہ دیتا ہوں کہ اگر بجٹ میں فاٹا اور پاٹا پر کوئی ٹیکس لگایا گیا تو ایسی صورتحال بنے گی امن و امان کی جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے کو حکومت نے دیا کیا ہے؟ آج بھی جس علاقے سے میں ہوں وہاں بجلی کی بندش سے متعلق بہت بڑا مظاہرہ ہو رہا ہے، جتنے مسائل ہیں اس کو پارلیمان میں لائیں اور اس کا حل نکالیں اور عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے ہم پارلیمنٹیرین کے طور پر کام کر رہے ہیں، جو بجٹ آرہا ہے اس میں ان علاقوں کے لیے پیکج دیں اور جو مختلف دھرنے بیٹھے ہیں ان سے بامعنی مذاکرات کریں، ہم اسمبلی میں بھی اس پر بات کریں گے۔ علامہ ناصر عباس نے اس موقع پر کہا مخلص حکمران عوام کااعتماد حاصل کرتے ہیں۔ یہاں دشمن فائدے اٹھا رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کا سوشل سسٹم تباہ کرکے ان کو دہشت گردوں کے حوالے کیا۔
فاٹا کے عوام کیساتھ انضمام سے قبل وعدے کئے گئے مگر پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا جان بوجھ کر ہمیں ٹکڑوں میں بانٹا جارہا ہے،ہمیں تقسیم کیا جارہا ہے۔ ہمیں علاقائیت اور قومیت کے نام پر تقسیم جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج قبائلی چاہتے ہیں کہ امن قائم ہو ان سے بات کی جائے۔ آپ کیسے حکمران ہیں کہ آپکی زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی ایک قوم نہیں بننے دے رہا کہا جاتا ہے کہ لاہور میں مسئلہ ہے فلاں جگہ ہے لیکن پاکستان کی بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے شکوہ کرتے ہوے کہا کہ ہمارے علاقے میں گیس بھی نہیں ہے کیا یہ لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟۔ محمود خان اچکزئی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عوام کا سرچشمہ ہو۔ مشاہد حسین کی سربراہی میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے کمیٹی بنی۔ کمیٹی نے کہا اسلحہ، افیوم اور چرس سمگل ہورہاہے۔ ایک ایک ٹیوب ویل سے دو دو لاکھ روپے لئے گئے۔ انہوں نے کہاافغانستان واحد ملک ہے جہاں پاکستان کا ہاتھ اوپر ہے۔ ٓپ نے قبائلی علاقے والوں کو گھروں سے نکالا کہ یہاں چور ہیں۔ قبائلی علاقوں کے لوگوں سے ہمیشہ ناانصافی کی گئی۔ قبائلی علاقہ بغیر کسی معاوضے کے آپ کا دفاع کررہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی اہمیت کے پیش نظر میٹنگ بھی کابل میں کی تھی۔