
فیصلہ سوال گندم جواب چنا ہے،ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی ،دیا پی ٹی آئی کو گیا ، اعظم نذیر تارڑ
فیصلے آئین و قانون کی بجائے ٹی وی پر چلنے والے مباحثوں کے مطابق ہو رہے ہیں،اب تک سمجھ نہیں پایا کون سا دائرہ اختیار استعمال کیاگیا؟، فیصلے سے حکومت کو خطرہ نہیں، اب بھی 209 اراکین کی اکثریت ہے، نظرثانی اپیل دائر کا فیصلہ اتحادی جماعتوں نے کرنا ہے، پریس کانفرنس
اسلام آباد(انٹرنیوز) وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے مخصو ص نشستوں بارے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ سوال گندم جواب چنا ہے،ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی دیا پی ٹی آئی کو گیا ،فیصلے آئین و قانون کی بجائے ٹی وی پر چلنے والے مباحثوں کے مطابق ہو رہے ہیں،اب تک سمجھ نہیں پایا کون سا دائرہ اختیار استعمال کیاگیا؟، فیصلے سے حکومت کو خطرہ نہیں، اب بھی ہمارے پاس 209 اراکین کی اکثریت ہے، نظرثانی اپیل دائر کا فیصلہ اتحادی جماعتوں نے کرنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، ہمارے پاس اب بھی 209اراکین کی اکثریت ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آزاد ڈکلیئر ہونے والے سینیٹرز آج بھی آزاد ہی درج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد اراکین نے بغیر رغبت اور اپنی منشاء سے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل سے ہیں، آزاد اراکین نے خود لکھ کر دیا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سماعت میں سامنے آیا کہ سنی اتحاد کونسل میں اقلیتیں شامل نہیں ہو سکتی تو شائد یہ راستہ بنایا گیا، سپریم کورٹ میں کبھی 80لوگ آکر کھڑے نہیں ہوئے کہ وہ پی ٹی آئی کے ہیں اور انہیں سنی اتحاد میں شامل کیوں ہونا پڑا؟، ان 80اراکین نے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے ہیں اور وہی ان کی شناخت ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کی تشریح عدالت کا اختیار تو ہے مگر اب بات آئینی تشریح سے آگے نکل گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 51کو دوبارہ لکھا گیا ہے، بطور قانون کے طالبعلم عدالت کے وقار کو مدنظر رکھوں گا، وفاقی حکومت اس پر اپیل کرے گی یا نہیں یہ فیصلہ کابینہ کرے گی، بطور وزیر قانون نظر ثانی پر اپنی رائے محفوظ رکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ نظر ثانی دائر کرنی ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اب تک سمجھ نہیں پایا کہ سپریم کورٹ نے کون سا دائرہ اختیار استعمال کیا، عدالت اس طرح سے آرٹیکل 187کا اختیار استعمال تو نہیں کر سکتی، بادی النظر میں ابھی تک کے فیصلے میں وضاحت نہیں ہے، اس فیصلے میں آئینی اور قانونی خامیاں ہیں کہ یہ زیر بحث رہے گا۔انہوں نے کہا کہ آئینی معاملے کو سیاست کے ساتھ مکس نہیں کروں گا، حکومت کی بھرپور اکثریت نے بجٹ بھی منظور کیا، حکومتی اتحاد نے کچھ اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ججز کے احتساب سمیت بہت سی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، ایک جج ایک دن میں 35، 40کیسز کا فیصلہ کرے اور دوسرا نہ کرے تو کیا یہ مس کنڈکٹ نہیں؟۔انہوں نے کہا کہ جج کا فرض ہے کہ عام آدمی جس کیلئے یہ نظام کھڑا کیا گیا ہے اس پر فوکس کریں، سارا رجحان سیاسی جماعتوں کی طرف ہے،عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ کا نمبرنیچے ہے، ملک میں احتساب کے نظام کو مزید بہتر بنایا جانا چاہئے، سیاسی مقدمات نے عدالتوں کوالجھا کررکھا ہوا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کوریلیف دینے کی بجائے مقدمات میں لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج کا فیصلہ سیاسی فیصلہ ہے، فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہئیں مگر فیصلے ٹی وی پر چلنے والے مباحثوں کے مطابق ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو مانگا ہی نہ گیا ہو عدالت وہ فیصلہ کرے تو یہ میرے لئے تکلیف دہ ہے، عدالت سے ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی لیکن پی ٹی آئی کو دے دیا گیا، کیس میں پی ٹی آئی نہ درخواست گزار تھی نہ انہوں نے ریلیف مانگا تھا،سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر فیصلہ سوال گندم جواب چنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے کے مندرجات دیکھ رہے ہیں، مخصوص نشستوں بارے قانون موجود ہے، نشستیں سنی اتحاد کونسل کو جانی چاہئے تھیں، کیس میں تو پی ٹی آئی فریق تھی ہی نہیں، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان نے جیتنے کے بعد کسی فورم سے رجوع نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل کے منشور کے مطابق انہیں اقلیتی نشستیں نہیں ملنی چاہئیںوہ غیر مسلم کو اپنا رکن تسلیم نہیں کرتی ۔عدالتی فیصلے کے دائرہ اختیار کی کوئی مثال نہیں مل رہی، فیصلے کے باعث ابہام اور سوالات نے جنم لیا ہے۔